خیالات پر کنٹرول کیسے؟
خیالات پر حکومت اور لاشعور کو متحرک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آنکھیں کسی ایک نقطے پر مرکوز کر دی جائیں اور پلکیں نہ جھپکائی جائیں۔ پلکیں جھپکانا ایک معکوسی حرکت Conditioned Reflex ہے جس کا تعلق لاشعور سے ہے۔ پلکیں نہ جھپکانے سے نظام اعصاب معطل سا ہو جاتا ہے اور دماغ پر اونگھ سی طاری ہونے لگتی ہے اور یہی اونگھ یہی نیم خوابی کی سی کیفیت تمام روحانی بیداریوں کی محرک ہے۔
ہمارے دماغ میں جو خوابیدہ یا نیم بیداری کے عالم میں طاقتیں موجود ہیں۔ انھیں مسخر کرنے کے لیے ہمیں آنکھوں سے کام لینا ہو گا اور اس کے لیے نظر کی یکسوئی، توجہ، مرکزیت ضروری ہے آنکھ ہی ہے جو کسی دوسرے شخص کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس قابل بنا دیتی ہے کہ آپ کی ترغیب یا تحریک ذہن مکمل طور پر قبول کرے۔
آپ نے اکثر دیکھا اور محسوس کیا ہو گا کہ جب آپ کسی کی آنکھوں میں اپنی نظریں مرکوز کر کے بات کرتے ہیں تو چند لمحے بعد وہ اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیتا ہے دراصل آنکھوں میں پوشیدہ برقی لہریں خارج ہو کر مخاطب پر پوری طرح اثر انداز ہونے لگتی ہیں اور اس کی آنکھیں اس قوت کو برداشت نہیں کر پاتیں۔
جب دوسرے آپ کی نظروں کی تاب نہیں لاتے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی آنکھوں میں یہ مقناطیسی لہریں بہت کم ہیں اور آپ کی آنکھوں میں یہ مقناطیسی لہریں زیادہ قوت بخش ہیں جس کے سامنے دوسرے کی نظریں شکست خوردگی محسوس کرتی ہیں۔ہر انسان کے ساتھ اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن انسان خود کبھی ان واقعات پر توجہ نہیں دیتا۔ حالانکہ اس کے پاس یہ قوت ہوتی ہے جو وہ روز بروز کمزور کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
کبھی آپ نے محدب شیشے کا تجربہ کیا ہے؟ محدب شیشے کے ذریعے سے سورج کی شعاعیں کسی کاغذ یا کپڑے پر ڈالی جاتی ہیں اور اس میں آگ لگ جاتی ہے جس طرح سورج کی کرنوں کا اجتماع دوسری چیزوں میں آگ لگا سکتا ہے کیا اس طرح خیال کی لہریں ایک نقطے پر جمع ہو کر آئینے میں شگاف نہیں ڈال سکتیں۔
خیال کی لہروں کو طاقت ور بنانے کے لیے توجہ کا ایک نقطہ سے چپک جانا اور چمٹ جانا ضروری ہے۔ جوں ہی توجہ کسی ایک نقطے پر چپک جاتی ہے خیال کی قوی اور برقی طاقت رکھنے والی لہریں دماغ سے خارج ہونے لگتی ہیں اور حیرت انگیز واقعات ظہور میں آنے لگتے ہیں۔
توجہ کسے کہتے ہیں
خاص نقطے کی طرف شعور کے مسلسل بہائو کو توجہ کہتے ہیں۔ توجہ کی دو قسمیں ہیں۔
1۔ مرکزی توجہ
2۔ ضمنی توجہ
مرکزی توجہ وہ ہے جس پر ذہن پوری طرح مرکوز و مرتکز یعنی جما ہوا ہو۔
ضمنی توجہ وہ ہے جو شعور کے حاشیہ پر موجود ہو۔ اس مضمون کی تحریر کے وقت میری توجہ پوری طرح اپنے موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہے لیکن شعور کے حاشیے پر بہت سی سرگرمیاں عمل میں آ رہی ہیں اورگاہ گاہ نظر ادھر ادھر بھی اٹھ جاتی ہے اور خیال اس طرف بھی چلا جاتا ہے۔ یہ حاشیے کی سرگرمیاں ضمنی توجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
کسی شے کی طرف توجہ مبذول کرنے کے اسباب خارجی بھی ہوتے ہیں اور داخلی بھی۔ مثلاً کسی کی دل کش تصویر یا کسی کا دلکش تصور۔ پہلا محرک (تصویر) خارجی ہوا اور دوسرا توجہ کو اپنی طرف منعطف اور مبذول کر دینے والا محرک (تصور) داخلی ہوا۔
عام طور پر ہماری توجہ حواس خمسہ کے عمل کے ساتھ بہتی رہتی ہے اور عملی شعور اور حقیقت پسندانہ زندگی بسر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہماری توجہ ٹھوس حقائق پر مرکوز ہو، تاہم بعض حقیقتیں ایسی ہیں کہ نظر نہیں آتی۔ سنائی دیتی ہیں لیکن انھیں سونگھا، چھوا، چکھا اور چھیڑا نہیں جا سکتا۔ تاہم منظم توجہ کے ذ ریعے سے ہم ان کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں منظم تفکر صرف انسان سے مخصوص ہے۔ جانورسوچ بچار کے عمل اور منظم توجہ کی اہلیت سے قطعاً محروم ہیں۔
ارتکاز توجہ یعنی دانستہ پورے قصد و اہتمام کے ساتھ اپنے شعور کی رو کو ایک طرف بہانا اور کوشش کرنا کہ صرف ایک نقطہ خیال پر ذہن کی تمام توانائی اور توجہ مبذول ہو جائے۔
ذہن کو صرف ایک موضوع، ایک مضمون، ایک مسئلہ اور ایک مرکز پر مجتمع کر دینا کہ دوسرا خیال نہ آنے پائے اور مرکزی تصور کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ اتنا مشکل اور دقت طلب کام ہے کہ مسلسل جدوجہد سے ہی کامیابی ممکن ہے۔
جس طرح ہم آنکھوں کو مجبور کر سکتے ہیں کہ مسلسل 5 منٹ ادھر ادھر بھٹکنے کی بجائے صرف ایک مرکز خیال سے چمٹی رہیں۔البصیر، التجلی، تسخیر، آفتاب بینی، ماہ بینی، سایہ بینی، آئینہ بینی، شمع بینی،یہ سب مشقیں ارتکاز توجہ کے لیے کی جاتی ہیں۔ ایک نقطے پر ذہن کی تمام فعالیت اور سرگرمی کو مرکوز کر دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عملی شعور کی رو سست پڑ جاتی ہے اور استغراق یعنی ڈوب جانے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے انسان میں Extra Sensory Perception (ایکسٹرا سینسری پرسیپشن) ادراک ماورائے حواس کی صلاحیتیں جاگنے لگتی ہیں۔