آج سے 30سال قبل میں نے ایسے حالات میں ٹیلی پیتھی سیکھنے اور ماسٹر پلان بنانے کے لیے تجربات شروع کیے تھے۔۔۔۔ جب لوگ اس قوت کو جادو سمجھتے تھے
ناکامی کی صورت میں دل برداشتہ نہیں ہوتا تھا۔۔۔ بلکہ اور زیادہ محنت کرتا ۔۔۔ پھر بھی رزلٹ نہ نکلنے کی صورت میں کتابوں میں لکھے گئے طریقہ کار سے ہٹ کر اپنی سوچ وفکر سے طریقہ کار میں تبدیلی کرکے پھر اس عزم سے مشقیں شروع کر دیتا کہ اب کی بار میں ضرور کامیاب ہوں گا۔لیکن کچھ عرصہ بعد محسوس ہوتا کہ مشقوں کا رزلٹ نہیں نکل رہا۔۔۔ کیونکہ مجھ پر اس کے کوئی نمایاں اثرات محسوس نہیں ہوتے تھے بلکہ تھوڑی بہت قوت کبھی کام کرجاتی کبھی کچھ بھی نہ ہوتا ایک طرف یہ صورتحال تھی کہ مشقوں کا رزلٹ اتنا نہیں مل رہا تھا۔۔۔ جتنا مطلوب تھا۔۔۔ دوسری طرف لوگوں کے انتہائی تکلیف دینے والے جملے سننے کو ملتے کہ یہ کوئی جادو کرتا ہے۔۔۔ اور اس سے بھی اہم مسئلہ ۔۔۔گھر میں سب سے چھپ کر مشقیں کرتا تھا۔۔۔۔ کوئی سہولت نہیں تھی۔۔۔۔ لیکن میں ڈٹا رہا۔۔۔۔ جما رہا۔۔۔۔ کہ اس علم کو ہر حال میں سیکھنا ہے
میں باقاعدگی سے اس علم کو سیکھنے کے لیے مشقیں کرتا رہا۔۔۔۔ ایکسٹرا وقت میں صرف کرکٹ کھیلتا بڑے مشکل حالات میں بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔۔ایکسرسائز جاری رکھیںجس مشق کا رزلٹ نہ ملتا اس کا طریقہ کار خود بدل کر پھر اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتا۔۔۔۔اس طرح ناکامی اور کامیابی کے درمیان سفر جاری رہا۔۔۔ کیونکہ میرا کوئی استاد نہیں تھا۔۔۔ اس لیے ہر مشکل کا حل بھی خود ہی تلاش کرتا۔۔۔۔۔۔
بالآخر ایک ایک ایکسر سائز کو مختلف طریقوں سے سرانجام دینے کے بعد میں اس کی حقیقی روح تک پہنچ گیا ۔۔۔ اور جب چاہتا کسی سے بھی مائنڈ ٹو مائنڈ لنک کر لیتا۔۔۔۔
میں اس عظیم کامیابی پر رکا نہیں بلکہ اپنے تجربات کی روشنی میں مختلف افراد کو ایکسرسائز کروائیں۔۔۔ اور پھر طے شدہ مقررہ مدت اور وقت میں کامیابی کی صورت میں ان ایکسرسائز کو ٹیلی پیتھی ماسٹر کورس کا نام دے دیا۔۔۔
آج یہ کورس آپ کو کروا رہا ہوں آپ شوق سے اسے سیکھنے کے لئے میدان میں نکل تو آئے ہیں لیکن آپ کو بالکل احساس نہیں کہ یہ تجربات کن حالات سے گزرتے ہوئے آپ تک پہنچے ہیں۔۔۔۔ میرا تو کوئی استاد نہیں تھا۔۔۔ پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور دس سال کے طویل عرصہ کے بعد کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔۔۔۔
آپ کو تو مسئلہ ہی کوئی نہیں آپ نے بس مستقل مزاجی سے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہنا ہے۔۔۔ آپ کا گائیڈ آپ کے ساتھ ہے فکر ہی کوئی نہیں۔۔۔۔ کب کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے بس مستقل مزاجی سے ایکسرسائز کرتے رہنا ہے۔۔۔۔
اتنی آسانیاں ہوں اور پھر آُ کا استاد رہنمائی کے لیے آپ کے ساتھ ہے
انسان کوجب کامل یقین ہو کہ اس سفر کے اختتام پر بہاریں ہی بہاریں ہیں ۔۔۔۔ خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔۔۔۔تو وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔۔۔۔۔ اور منزل پر پہنچ جاتا ہے
مختصرا یہ کہ آپ صبر اور مستقل مزاجی سے ایکسرسائز کرتے رہیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔